آسماں ہلنے لگیں

غزل
آسماں ہلنے لگیں گے یہ زمیں پھٹ جائے گی
تیرے کانوں تک نہ پاے دل کی آہٹ جائے گی
چاہ کر بھی شمع پروانے سے کہہ پاتی نہیں
مت بڑھانا فاصلہ ورنہ کشش گھٹ جائے گی
دیکھنا ہو جائے گا سارا گلستاں باغ باغ
جب توجہ باغبانِ وقت کی ہٹ جائے گی
دھوپ میں تپتے ہوئے لوگوں کو تکنے کے سوا
کیا کرے گا پیڑ اک اک شاخ جب کٹ جائے گی
وہ تکبّر میں پڑے تھے اُن کو اندازہ نہ تھا
وقت پر اک بے اثر سی فوج بھی ڈٹ جائے گی
کس طرح حاصل ہمیں ہوگا وہ رعب و دبدبہ
چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں قوم جب بٹ جائے گی
کچھ بھی بولوں تو زباں پر نام آتا ہے تِرا
کیا خبر تھی یوں تجھے میری زباں رٹ جائے گی
سوچتا رہتا ہے راغبؔ اب یہی بوڑھا چراغ
کیا کسی دن شمس کی بھی روشنی گھٹ جائے گی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *