کمرے کی کھڑکیوں پہ ہے جالا لگا ہوا

کمرے کی کھڑکیوں پہ ہے جالا لگا ہوا
اُس کے مکاں پہ کب سے ہے تالا لگا ہوا

پائی تھی گھر کے سامنے مفرور شب کی لاش
اُس کے بدن میں برف کا بھالا لگا ہوا

بارش بھی میرے دامنِ دل سے نہ دھو سکی
جو رنگ اس نے کب سے اُچھالا لگا ہوا

یوں پھر رہے ہیں زخمِ جدائی سجائے ہم
وردی پہ جیسے تمغئہ اعلیٰ لگا ہوا

پردے ہٹائیے ذرا، کب سے ہے منتظر
کھڑکی کے ساتھ دل کا اُجالا لگا ہوا

محسوس جو کیا ہے وہی کہہ دیا نسیم
کانٹا سا اپنے دل سے نکالا لگا ہوا
افتخار نسیم

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *