اس کو احساس کے آنگن میں اتر جانے دے
حبس بڑھ جائے تو بینائی چلی جاتی ہے
کھڑکیاں کھول کے رکھ، تازہ ہوا آنے دے
تیرے روکے سے وہ بد عہد کہاں رُکتا ہے
پائوں چھونے سے تو بہتر ہے اسے جانے دے
جن میں اب تک مرے بچوں کا لہو جلتا ہے
ان مکانوں پہ تو پرچم مرا لہرانے دے
تو جو آیا تو جی بھی کے تجھے دیکھیں گے
بارشِ اشک ذرا آنکھ سے تھم جانے دے
نوشی گیلانی