ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی

ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی
لینا ہی پڑا دل کو ضرورت بھی بہت تھی

ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

گو ترک تعلق میں سہولت بھی بہت تھی
لیکن نہ ہوا ہم سے کہ غیرت بھی بہت تھی

اس بت کے ستم سہہ کے دکھا ہی دیا ہم نے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی

واقف ہی نہ تھا رمز محبت سے وہ ورنہ
دل کے لیے تھوڑی سی عنایت ہی بہت تھی

یوں ہی نہیں مشہور زمانہ مرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی

کیا دور غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کے فرصت بھی بہت تھی

ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی

بلوا کے ہم عاجز کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجیے کم بخت کی شہرت بھی بہت تھی

کلیم عاجز

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *