پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ رک تک کے ہر اک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیے قدموں کے سُراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مَے و مینا وایاغ
اپنے بے کواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
فیض احمد فیض
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *