تیری خاطر ہی فقط دست حنائی ہے ناں

تیری خاطر ہی فقط دست حنائی ہے ناں
میں نے تیرے ہی لیے شمع جلائی ہے ناں
دل مرا روز سلگتا ہے یوں ہی شاموں میں
سچ بتا آگ اسے توٗ نے لگائی ہے ناں
میں ترے سوگ میں جی بھر کے ہنسا کرتی ہوں
یہ کہانی تجھے غیروں نے سنائی ہے ناں
میری آنکھوں کے چھلکنے پہ برا مت مانو
اشک اک اک تری یادوں کی کمائی ہے ناں
تو تصوّر سے کسی پل بھی نہیں کٹ سکتا
بیچ تیرے مرے یہ دردِ جدائی ہے ناں
یہ جو آنکھیں مری ہر اک کو سنا دیتی ہیں
داستاں یہ تیری آنکھوں نے سنائی ہے ناں
اب تو خود کو بھی میں اکثر نہیں اپنی لگتی
بِن ترے اب یہاں ہر چیز پرائی ہے ناں
آج کی شام یہاں لوٹ کے تم آجانا
میں نے یہ شام امیدوں سے سجائی ہے ناں
وہ ربابؔ آئیں تو سب کچھ ہی انھیں سونپوں میں
میں نے دنیا یہ ہتھیلی پہ اٹھائی ہے ناں
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *