کسی کا لمس کہاں اب نشان چھوڑے گا

کسی کا لمس کہاں اب نشان چھوڑے گا
چلا کے تیر وہ اپنی کمان چھوڑے گا
ہواے شہر سے جس کو بھی خوف آتا ہو
وہ کیسے گاؤں کا کچا مکان چھوڑے گا
ہزار اس کے پروں کو کتر کے دیکھو تم
پرندِ فکر کہاں اب اُڑان چھوڑے گا
میں جانتی ہی نہیں تھی صداقتوں کا امین
مرے خلاف ہی جھوٹے بیان چھوڑے گا
میں تجھ سے مل کے بھی بچھڑی ہوئی رہوں گی اب
یہ تیرا ہجر کہاں میری جان چھوڑے گا
یہ شدّتیں بھی تو اکثر فریب دیتی ہیں
مرا جنوں ہی مجھے بے نشان چھوڑے گا
توقعات کا عالم عجیب تھا مجھ میں
کہاں تلک وہ مجھے بدگمان چھوڑے گا
ربابؔ دور سہی پر یقین محکم ہے
مجھے کبھی نہ وہ بے سائبان چھوڑے گا
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *