عجب صورت سے دل گھبرا رہا ہے

عجب صورت سے دل گھبرا رہا ہے
ہنسی کے ساتھ رونا آ رہا ہے

مجھے دل سے بھلایا جا رہا ہے
پسینے پر پسینا آ رہا ہے

مروت شرط ہے اے یاد جاناں
تمناؤں کا جی گھبرا رہا ہے

مری نیندیں تو آنکھوں سے اڑا دیں
مگر خود وقت سویا جا رہا ہے

ادب کر اے غم دوراں ادب کر
کسی کی یاد میں فرق آ رہا ہے

یہ آدھی رات یہ کافر اندھیرا
نہ سوتا ہوں نہ جاگا جا رہا ہے

ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک
فلک کا چاند بنتا جا رہا ہے

سراج اب دل کشی کیا زندگی میں
بہ مشکل وقت کاٹا جا رہا ہے

سراج لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *