ہمیں شکوہ تو ہے اس

ہمیں شکوہ تو ہے اس زندگی کا
تو پھر اب کیا کریں اس بے دلی کا
مکمل کب ہوئی تھی بات پچھلی
سوال اُٹھا تمہاری بے رُخی کا
ہماری عمر پر پھیلا ہوا ہے
کسی کا ساتھ تھا بس دو گھڑی کا
سبھی چہروں پہ ہے اک موت چھائی
زمانہ ہی نہیں زندہ دلی کا
تِرے بن ہو گئی برباد کتنی
مجھے افسوس ہے تیری گلی کا
گنوا بیٹھا تجھے مدہوشیوں میں
جنازہ پڑھ رہا ہوں بے خودی کا
مجھے خود داریوں نے مار ڈالا
تماشا بن گیا بے چارگی کا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *