کچھ بھی ہو سکتے تھے

کچھ بھی ہو سکتے تھے، تسخیر نہیں ہونا تھا!
ہم کو یوں درد کی تصویر نہیں ہونا تھا!
وہ تو تم آئے تو تھوڑا سا یقیں پختہ ہوا
ہم نے تو قائلِ تقدیر نہیں ہونا تھا!
حوصلہ ہار کے جینا بھی کوئی جینا ہے
گر ہی پڑنا تھا تو تعمیر نہیں ہونا تھا!
پاگلا !دیکھتے رہنا تھا روانی کو فقط
ایسے، دریا سے بغلگیر نہیں ہونا تھا!
چاہتے ہم تو تجھے روک ہی لیتے لیکن
بس ترے پائوں کی زنجیر نہیں ہونا تھا!
میں جو رانجھا نہ ہوا اس پہ گلہ کیوں لوگو
اُس نے ویسے بھی مری ہیر نہیں ہونا تھا!
جیسے اُس شخص کی، اشکوں سے کہانی لکھی
زینؔ یوں اُس نے تو تحریر نہیں ہونا تھا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *