عجیب خوف ہے سارے نگر سے

عجیب خوف ہے سارے نگر سے لپٹا ہے
یہ دل تو اب بھی تمہارے نگر سے لپٹا ہے
مرا وجود اسی رہگزر سے لپٹا ہے
وہ یوں گیا کہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
یہ رنج اب بھی بِچارے نگر سے لپٹا ہے
نہ جانے کب کوئی ہوجائے سانحہ کس جا
عجیب خوف ہمارے نگر سے لپٹا ہے
میں اس کے حال پہ اب ترس کھاتا رہتا ہوں
وہ شخص جیت کے، ہارے نگر سے لپٹا ہے
ہے ایک راستہ جو ختم ہی نہیں ہوتا
ہے ایک طول جو میرے سفر سے لپٹا ہے
یہ سارا شہر خدا پر یقین کیسے کرے
بشر کا خوف، خدا کے بشر سے لپٹا ہے
میں جانتا ہوں مجھے سچ نہیں بتایا گیا
تمام جھوٹ ہی سچی خبر سے لپٹا ہے
میں اپنی فکر میں گم تھا مگر مرے دل سے
ترا خیال نجانے کدھر سے لپٹا ہے
میں تیرے حزن کے تعویذ باندھ بیٹھا ہوں
سکونِ ذات بھی غم کے اثر سے لپٹا ہے
اسی کی یاد کا جھونکا ہمارے سینے سے
جدھر جدھر بھی گئے ہیں، اُدھر سے لپٹا ہے
تم اُس سے زین بھلے دم بہ دم بچھڑتے رہو
اُسی کا قُرب اُسی کے مفر سے لپٹا ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *