زندگییہ زندگی یہ عام

زندگی
یہ زندگی ،یہ عام زندگی، قرار زندگی
پکار زندگی ،نگار خانہء مراد اور
فشار زندگی،بہار زندگی،خزاں کی رُت
پھر اس کے بعد پھر کہیں سدا بہار زندگی
مگر اداسیوں کے اشہبِ سیاہ پر یہاں
سوار زندگی، بڑی ہی بے قرار زندگی،
قطار زندگی، یہ تار تار زندگی مگر
کہیں پہ کم کہیں کہیں پہ بے شمار زندگی
حصار زندگی، وہ عارضی سے ایک جسم میں
کہیں پہ قید مدتوں سے اشکبار زندگی
کہیں پہ آرزو کی لہلہاتی آبشار اور
کہیں پہ بے پناہ درد کا خمار زندگی
ملال زندگی بڑی ہی پر ملال زندگی
کمالِ جستجو پہ آ ہوئی نڈھال زندگی
سنا رہی ہے کب سے اک فسانہء نشاطِ جاں
کہ لگ رہی ہے اب تو بس کوئی وبال زندگی
پرندگی کہوں کہ پھر درندگی اسے کہوں
کہ دے کے طاقتِ اڑان، کاٹ کر یہ بال و پر
ہمی سے پوچھتی نہیں ہے حال چال زندگی
کہیں پہ کوئی فیصلہ ابھی تلک نہ ہو سکا
کہ لاجواب ہے یا پھر فقط سوال زندگی
کسی کی چاہتوں کی بے بسی سمجھ نہیں سکی
ہے بے حسی کی قید میں بھی شرمسار زندگی
یہ رنج رنج چاہتیں، الم الم محبتیں
یہ بے سبب عداوتیں، نگاہ کی وضاحتیں
عذابِ بے کلی رگوں میں اس طرح اتر گیا
کہ بے لگام حسرتیں ،ہے بے مہار بندگی
کہیں خطاب ہے کہیں پہ ہے خطیب زندگی
کہیں صلیب پر لٹک گئی عجیب زندگی
کچھ اس طرح سمے خوشی کا ڈھل گیا عزیزِ من
کہ لفظِ غم دوام شد،یہ زندگی تمام شد
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *