ہماری بات ہنسی میں ہی بس اڑائی گئی
خوشی تو یہ ہے مجھے دفن کر دیا یونہی
یہی بہت ہے کہ میّت نہیں سجائی گئی
میں دے رہا تھا دعائیں اسے “سہاگن رہ”
کسی کی گڑیا مجھے خواب میں دکھائی گئی
لہو لہان کیا میں نے اپنے ہاتھوں کو
مگر نصیب سے کالک نہیں مٹائی گئی
ترے لبوں پہ بھلا کیوں کسی کا نام آیا؟
ہمارے ہاتھ سے کیسے تری کلائی گئی؟
تمہارا گھر ہے اجازت بنا ہی آیا کرو
تمہارے واسطے گھنٹی نہیں لگائی گئی
ہم اپنے ہاتھ میں کاسہ لیے نکل تو پڑے
مگر یہ کیا کہ صدا ہی نہیں لگائی گئی
اسے بھی کیا میں تجھے یاد کرتے رہنا کہوں؟
کہ تیری یاد بڑی دیر تک بھلائی گئی
وہ آ کے زین پریشان ہو گیا اتنا
مرے مکاں سے اداسی نہیں چھپائی گئی
زین شکیل