تُو مرے غم کو سمندر سے

تُو مرے غم کو سمندر سے بھی گہرا کہتا
مان لیتا میں وہی تُو مجھے جیسا کہتا
اتنی عجلت میں کوئی بات بنائی نہ گئی
تُو مجھے چھوڑ چلا تھا، میں تجھے کیا کہتا؟
کاٹ دیتا میں اِسے سہتے ہوئے عمر اپنی
میں ترے درد کو ہر طور سنہرا کہتا
تھا تری ذات کا صحرا مرے اندر ورنہ
اتنی جرات کہ سمندر مجھے پیاسا کہتا
کیوں بھلا چاند ستاروں سے ملاتا تجھ کو
میں تو اے محرمِ جاں بس تجھے تجھ سا کہتا
لے چلا تھا تُو مجھے مجھ سے بہت دور کہیں
جانے والے اے تجھے کاش میں تنہا کہتا
تیرے نہ آنے پہ چُپ چاپ رہا ہوں، اور تُو
میں نہ آتا تو نجانے مجھے کیا کیا کہتا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *