آزاد غزلجسے مانگتا

آزاد غزل
جسے مانگتا ہوں میں ہر دعا کی اخیر تک
مرے ذائچے کی وہ ابتدا نہیں ہو رہا
تجھے بھولنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں
تجھے یاد کرنے کا سلسلہ تو کمال تھا
میں اُسی کے ہاتھ میں دے چکا ہوں وجود بھی
مجھے لے اُڑا ہے مگر ہوا نہیں ہو رہا
مری بے بسی، مری بے کسی، مرے حوصلے
مری آرزو، مری آبرو، مری جستجو
کوئی عہد اُس نے کیا نہیں سو برا نہیں
مرا بد گماں ابھی بے وفا نہیں ہو رہا
مرے خواب بکھرے پڑے ہوئے تھے اندھیر میں
سو مری نگاہ کی روشنی کو چرا لیا
تجھے سوچ سوچ کے سوچ، سوچ میں پڑ گئی
نا خبر ہوئی میں یہاں، وہاں سے کدھر گیا
ابھی کس طرح سے پلک جھپکنے کا سوچ لوں
کہ وہ شخص مجھ سے ابھی جدا نہیں ہو رہا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *