اب نہیں ہوتی چشم تر افسوس

اب نہیں ہوتی چشم تر افسوس
بہ گیا خون ہو جگر افسوس
دیدنی ہے یہ خستہ حالی لیک
ایدھر اس کی نہیں نظر افسوس
عیب ہی عیب میرے ظاہر ہیں
مجھ کو آیا نہ کچھ ہنر افسوس
میرؔ ابتر بہت ہے دل کا حال
یعنی ویراں پڑا ہے گھر افسوس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *