عمر کی بے قراریوں کی قسم
خواب بے نور رہروؤں کی طرح
راستوں میں بھٹکتے رہتے ہیں
آنکھ کی زرد وادیوں میں اگر
کوئی آجائے بھول کر رستہ
آنسوؤں کی طرح پگھل جائے
خشک صحراؤں سے نکلتے ہیں
جانے کیسے یہ پانیوں کے جہاں
جانے کیوں دامنوں پہ گرتے ہیں
آنکھ کی زرد وادیاں اکثر
ساری دنیا میں پھیل جاتی ہیں
مستقل بے کلی ٹھہرتی ہے
سر پہ بے رنگ آسماں کی طرح
اور ہم دل چھپائے پھرتے ہیں
اس زمانے سے خوف آتا ہے
بے قراری سے مل نہ جائے کہیں
اور ہمیں آن کر دبوچ نہ لے
وقت یونہی ہمارے بارے میں
کوئی الٹی سی بات سوچ نہ لے
فرحت عباس شاہ