ادھر مطرب کا عودی رنگ کب طناز آتا ہے

ادھر مطرب کا عودی رنگ کب طناز آتا ہے
عجب ہیں لوگ جو کہتے ہیں وہ ناساز آتا ہے
خبر ہے شرط اتنا مت برس ائے ابر بارندہ
ہمیں بھی آج رونا درد دل پرداز آتا ہے
اٹھے ہے گرد معشوقانہ اس تربت سے عاشق کی
کبھو ٹک جس کے اوپر وہ سراپا ناز آتا ہے
عجب رنگ حنا طائر ہے دست آموز خوباں کا
اڑے ہے تو بھی ہاتھوں ہی میں کر پرواز آتا ہے
وہی نازاں خراماں کبک سا آیا مری جانب
کوئی مغرور وہ شوخی سے اپنی باز آتا ہے
رہائی اپنی ہے دشوار کب صیاد چھوڑے ہے
اسیر دام ہو طائر جو خوش آواز آتا ہے
اگر مسجد سے آؤں میرؔ تو بھی لوگ کہتے ہیں
کہ میخانے سے پھر دیکھو وہ شاہد باز آتا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *