تخت ہے اور کہانی ہے وہی

تخت ہے اور کہانی ہے وہی
اور سازش بھی پرانی ہے وہی
قاضی شہر نے قبلہ بدلہ
لیکن خطبے میں روانی ہے وہی
خیمہ کش اب کے ذرا دیکھ کے ہو
جس پہ پہرہ تھا ، یہ پانی ہے وہی
صلح کو فسخ کیا دل میں مگر
اب بھی پیغام زبانی ہے وہی
آج بھی چہرہ ء خورشید ہے زرد
آج بھی شام سہانی ہے وہی
بدلے جاتے ہیں یہاں روز طبیب
اور زخموں کی کہانی ہے وہی
حجلہ غم یونہی آراستہ ہے
دل کی پوشاک شہانی ہے وہی
شہر کا شہر یہاں ڈوب گیا
اور دریا کی روانی ہے وہی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *