آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں
تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز
میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *