دعویٰ ہے یوں ہی اس کا ترے حسن گوش پر

دعویٰ ہے یوں ہی اس کا ترے حسن گوش پر
یاں کون تھوکے ہے صدف ہرزہ کوش پر
شاید کسو میں اس میں بہت ہو گیا ہے بعد
تم بھی تو گوش رکھو جرس کے خروش پر
جیب و کنار سے تو بڑھا پانی دیکھیے
چشمہ ہماری چشم کا رہتا ہے جوش پر
اک شور ہے جو عالم کون و فساد میں
ہنگامہ ہے اسی کے یہ لعل خموش پر
ہے بار دوش جس کے لیے زندگی سو وہ
رکھ ہاتھ راہ ٹک نہ چلا میرے دوش پر
جو ہے سو مست بادۂ وہم و خیال ہے
کس کو ہے یاں نگاہ کسو درد نوش پر
مرغ چمن نے کیا حق صحبت ادا کیا
لالا کے گل بکھیرے مرے قبر پوش پر
جب تک بہار رہتی ہے رہتا ہے مست تو
عاشق ہیں میرؔ ہم تو تری عقل و ہوش پر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *