دن کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے

دن کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے
مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے
ہنگامہ میری نعش پہ تیری گلی میں ہے
لے جائیں گے جنازہ کشاں یاں سے کب مجھے
ٹک داد میری اہل محلہ سے چاہیو
تجھ بن خراب کرتے رہے ہیں یہ سب مجھے
طوفاں بجائے اشک ٹپکتے تھے چشم سے
اے ابر تر دماغ تھا رونے کا جب مجھے
دو حرف اس کے منھ کے تو لکھ بھیجیو شتاب
قاصد چلا ہے چھوڑ کے تو جاں بلب مجھے
کچھ ہے جواب جو میں کروں حشر کو سوال
مارا تھا تو نے جان سے کہہ کس سبب مجھے
غیراز خموش رہنے کہ ہونٹوں کے سوکھنے
لیکن نہیں ہے یار جھگڑنے کا ڈھب مجھے
پوچھا تھا راہ جاتے کہیں ان نے میرؔ کو
آتا ہے اس کی بات کا اب تک عجب مجھے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *