دنیا کی قدر کیا جو طلبگار ہو کوئی

دنیا کی قدر کیا جو طلبگار ہو کوئی
کچھ چیز مال ہو تو خریدار ہو کوئی
کیا ابر رحمت اب کے برستا ہے لطف سے
طاعت گزیں جو ہو سو گنہگار ہو کوئی
کیا ضعف تن میں ہے جگر و دل دماغ بن
پوچھے جو اس قشون میں سردار ہو کوئی
ہم عاشقان زرد و زبون و نزار سے
مت کر ادائیں ایسی کہ بیزار ہو کوئی
چپکے ہیں ہم تو حیرت حالات عشق سے
کریے بیاں جو واقف اسرار ہو کوئی
یکساں ہوئے ہیں خاک سے پامال ہو کے ہم
کیا اور اس کی راہ میں ہموار ہو کوئی
وہ رہ سکے ہے دل زدہ کچھ منتظر کھڑا
حیرت سے اس کے در پہ جو دیوار ہو کوئی
اک نسخۂ عجیب ہے لڑکا طبیب کا
کچھ غم نہیں ہے اس کو جو بیمار ہو کوئی
کیا اضطراب دل سے کہے میرؔ سرعشق
یہ حال سمجھے وہ جو گرفتار ہو کوئی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *