جب سے اُس پیکرِ

غزل
جب سے اُس پیکرِ تنویر کے پیچھے بھاگے
پھر کسی خواب نہ تعبیر کے پیچھے بھاگے
بھاگتے رہ گئے پیچھے ہی تِرے اے دنیا
جو تِری زلفِ گرہ گیر کے پیچھے بھاگے
رات دن بیٹھ کے تقدیر کو رونے والو
کیا کبھی تم کسی تدبیر کے پیچھے بھاگے
اس پہ ایمان ہمارا ہے مگر ہم ہرگز
موند کر آنکھ نہ تقدیر کے پیچھے بھاگے
قول اور فعل میں کچھ میل نہیں اے واعظ
کوئی کیسے تِری تقریر کے پیچھے بھاگے
بھاگنے کا ہو جسے شوق وہ سب سے پہلے
اپنے کردار کی تعمیر کے پیچھے بھاگے
ایک فنکار کی راغبؔ یہ نہیں شان کہ وہ
صاحبِ دولت و توقیر کے پیچھے بھاگے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *