صبح ہوئی گلزار کے طائر دل کو اپنے ٹٹولیں ہیں

صبح ہوئی گلزار کے طائر دل کو اپنے ٹٹولیں ہیں
یاد میں اس خود رو گل تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں
باغ میں جو ہم دیوانے سے جا نکلیں ہیں نالہ کناں
غنچے ہو ہو مرغ چمن کے ساتھ ہمارے ہولیں ہیں
یار ہمارا آساں کیا کچھ سینہ کشادہ ہم سے ملا
خون کریں ہیں جب دل کو وے بند قبا کے کھولیں ہیں
مینھ جو برسے ہے شدت سے دیکھ اندھیری کیا ہے یہ
یعنی تنگ جو ہم آتے ہیں دل کو کھول کے رولیں ہیں
وہ دھوبی کا کم ملتا ہے میل دل اودھر ہے بہت
کوئی کہے اس سے ملتے میں تجھ کو کیا ہم دھولیں ہیں
سرو تو ہے سنجیدہ لیکن پیش مصرع قد یار
ناموزوں ہی نکلے ہے جب دل میں اپنے تولیں ہیں
مرگ کا وقفہ اس رستے میں کیا ہے میرؔ سمجھتے ہو
ہارے ماندے راہ کے ہیں ہم لوگ کوئی دم سولیں ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *