طلب ہے کام دل کی اس کے بالوں کی اسیری میں

طلب ہے کام دل کی اس کے بالوں کی اسیری میں
گدائی رات کو کرتا ہوں خجلت سے فقیری میں
نگہ عزلت میں اس ابرو کماں کی تھی ادھر یعنی
لگا تیر اس کا چھاتی میں ہماری گوشہ گیری میں
نظیر اس کی نظر آئی نہ سیاحان عالم کو
سیاحت دور تک کی ایک ہے وہ بے نظیری میں
حزیں آواز ہے مرغ چمن کی کیا جنوں آور
نہیں خوش زمزمہ ویسا ہماری ہم صفیری میں
جوانی میں نہ رسوائی ہوئی تا میرؔ غم کھینچا
ہوئے اطفال تہ بازار گاہک جی کے پیری میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *