غیر کو دیکھے ہے گرمی سے نہ کچھ لاگ لگے

غیر کو دیکھے ہے گرمی سے نہ کچھ لاگ لگے
اس لیے دیکھ رہا ہے کہ مجھے آگ لگے
آنکھ ہر ایک کی دوڑے ہے کفک پر تیرے
پاؤں سے لگ کے ترے مہندی کو کچھ بھاگ لگے
ہو نہ دیوانہ جو اس گوہر خوش آب کا تو
لب دریا کے تئیں کیوں رہیں یوں جھاگ لگے
اب تو ان گیسوؤں کی یاد میں میں محو ہوا
گو قیامت کو مرے منھ سے ہوں دو ناگ لگے
لڑکے دلی کے ترے ہاتھ میں کب آئے میرؔ
پیچھے ایک ایک کے سو سو پھریں ہیں ڈاگ لگے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *