کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت
کعبۂ مقصود کو پہنچے نہ ہائے
سعی کی اے شیخ ہم نے بھی بہت
سب ترے محو دعائے جان ہیں
آرزو اپنی بھی ہے تو جی بہت
رک رہا ہے دیر سے تڑپا نہیں
عشق نے کیوں دل کو مہلت دی بہت
کیوں نہ ہوں دوری میں ہم نزدیک مرگ
دل کو اس کے ساتھ الفت تھی بہت
وہ نہ چاہے جب تئیں ہوتا ہے کیا
جہد کی ملنے میں اپنی سی بہت
کب سنا حرف شگون وصل یار
یوں تو فال گوش ہم نے لی بہت
تھا قوی آخر ملے ہم خاک میں
آسماں سے یوں رہی کشتی بہت
آج درہم کرتے تھے کچھ گفتگو
میرؔ نے شاید کہ دارو پی بہت