کیا پوچھو ہو کیا کہیے میاں دل نے بھی کیا کام کیا

کیا پوچھو ہو کیا کہیے میاں دل نے بھی کیا کام کیا
عشق کیا ناکام رہا آخر کو کام تمام کیا
عجز کیا سو اس مفسد نے قدر ہماری یہ کچھ کی
تیوری چڑھائی غصہ کیا جب ہم نے جھک کے سلام کیا
کہنے کی بھی لکھنے کی بھی ہم تو قسم کھا بیٹھے تھے
آخر دل کی بیتابی سے خط بھیجا پیغام کیا
عشق کی تہمت جب نہ ہوئی تھی کاہے کو شہرت ایسی تھی
شہر میں اب رسوا ہیں یعنی بدنامی سے کام کیا
ریگستاں میں جا کے رہیں یا سنگستاں میں ہم جوگی
رات ہوئی جس جاگہ ہم کو ہم نے وہیں بسرام کیا
خط و کتابت لکھنا اس کو ترک کیا تھا اس ہی لیے
حرف و سخن سے ٹپکا لوہو اب جو کچھ ارقام کیا
تلخ اس کا تو شہد و شکر ہے ذوق میں ہم ناکاموں کے
لوگوں میں لیکن پوچ کہا یہ لطف بے ہنگام کیا
جیسے کوئی جہاں سے جاوے رخصت اس حسرت سے ہوئے
اس کوچے سے نکل کر ہم نے رو بہ قفا ہر گام کیا
میرؔ جو ان نے منھ کو ادھر کر ہم سے کوئی بات کہی
لطف کیا احسان کیا انعام کیا اکرام کیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *