تقدیر ہے تقدیر سے لڑ بھی نہیں سکتے

تقدیر ہے تقدیر سے لڑ بھی نہیں سکتے
ہم اس سے زیادہ تو اجڑ بھی نہیں سکتے
حالات بگڑنے سے مزہ دیتا ہے جیون
پر تیرے تو حالات بگڑ بھی نہیں سکتے
کچھ درد سدا سبز رہیں گے مرے اندر
یہ پتے مرے پیڑ سے جھڑ بھی نہیں سکتے
کچھ خیمے ترے غم کے مرے دامن دل پر
اس طرح گڑے ہیں کہ اکھڑ بھی نہیں سکتے
اس یار جفاکار و ستم کیش سے اپنا
ہے ایسا تعلق کہ جھگڑ بھی نہیں سکتے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *