لطف جوانی کے ساتھ گئے پیری نے کیا ہے کیا محظوظ

لطف جوانی کے ساتھ گئے پیری نے کیا ہے کیا محظوظ
کیونکے جئیں یارب حیرت ہے بے مزہ ایسے نا محظوظ
رونے کڑھنے کو عیش کہو ہو ہم تو تمھارے دعاگو ہیں
یوں ہی ہمیشہ عشق میں اس کے رکھے ایسا خدا محظوظ
زردی منھ کی اشک کی سرخی دونوں اب تو رنگ پہ ہیں
شاید میرؔ بہت رہتے ہو اس سے ہو کے جدا محظوظ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *