منھ کیے اودھر زرد ہوئے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں

منھ کیے اودھر زرد ہوئے جاتے ہیں ڈر سے سبک ساراں
کیوں کے ہیں گے اس رستے میں ہم سے آہ گراں باراں
جی تو پھٹا دیکھ آئینہ ہر لوح مزار کا جامہ نما
پھاڑ گریباں تنگ دلی سے ترک لباس کیا یاراں
کی ہے عمارت دل کی جنھوں نے ان کی بنا کچھ رکھی رہی
اور تو خانہ خراب ہی دیکھے اس بستی کے معماراں
میخانے میں اس عالم کے لغزش پر مستوں کی نہ جا
سکر میں اکثر دیکھے ہم نے بڑے بڑے یاں ہشیاراں
کیا ستھراؤ شفا خانے میں عشق کے جا کر دیکھے ہیں
ایدھر اودھر سینکڑوں ہی بر پشت بام تھے بیماراں
بعد صبوحی گھگھیاتے گھگھیاتے باچھیں پھٹ بھی گئیں
یارب ہو گی قبول کبھو بھی دعائے صبح گنہگاراں
عشق میں ہم سے تم سے کھپیں تو کھپ جاویں غم کس کو ہے
مارے گئے ہیں اس میداں میں کیا دل والے جگر داراں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *