ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ

ہر چند جذب عشق سے تشریف یاں بھی لائے وہ
پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ
خوبی و رعنائی ادھر بدحالی و خواری ادھر
اے وائے ہم اے وائے ہم اے ہائے وہ اے ہائے وہ
مارا ہوا چاہت کا جو آوارہ گھر سے اپنے ہو
حیراں پریشاں پھر کے پھر کیا جانے کیدھر جائے وہ
جی کتنا محو و رفتہ کا جو ہو طرف دیکھے تجھے
تو کج کرے ابرو اگر پل مارتے مرجائے وہ
الفت نہیں مجھ سے اسے کلفت کا میری غم نہیں
پائے غرض ہو درمیاں تو چل کے یاں بھی آئے وہ
عاشق کا کتنا حوصلہ یہ معجزہ ہے عشق کا
جو خستہ جاں پارہ جگر سو داغ دل پر کھائے وہ
مشکل عجائب میرؔ ہے دیدار جوئی یار کی
دیکھے کوئی کیا اس کو جو آنکھیں لڑے شرمائے وہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *