ہم اس مرتبہ پھر بھی لشکر گئے

ہم اس مرتبہ پھر بھی لشکر گئے
تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے
نظر اک سپاہی پسر سے لڑی
قریب اس کے تلوار کر کر گئے
بہم مہر ورزی کے سرگرم تھے
خدا جانے وہ لوگ کیدھر گئے
لہو میری آنکھوں میں آتا نہیں
جگر کے مگر زخم سب بھر گئے
رباط کہن میں نہیں میرؔ جی
ہوا جو لگی وے بھی باہر گئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *