ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے

ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے
مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک
روشنی ہے سو یاں مرے دم سے
تم جو دلخواہ خلق ہو ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے
درہمی آ گئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوان درہم سے
سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے
بہ گئے اشک دیدۂ نم سے
مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے
اکثر آلات جور اس سے ہوئے
آفتیں آئیں اس کے مقدم سے
دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں
تیغ نکلی اس ابروئے خم سے
کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے
وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اس کے کسو جو محرم سے
درپ ئے خون میرؔ ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *