کیا جانیے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا ؟

کیا جانیے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا ؟
گرشام کا بھولاہے تو گھر کیوں نہیں جاتا ؟
ہم کو نہیں معلوم کہ اجڑے ہوئے دل سے
آوارہ مزاجی کا اثر کیوں نہیں جاتا ؟
کیا بات ہے سڑکوں پہ اترتی نہیں رونق
کیا بھید ہے اس شہر سے ڈر کیوں نہیں جاتا
صدیوں سے تجھے تکتے ہوئے سوچ رہا ہوں
جی تیرے خد و خال سے بھر کیوں نہیں جاتا ؟
آنکھوں سے اداسی کی گھٹا کیوں نہیں چھٹتی
سینے سے محبت کا بھنور کیوں نہیں جاتا ؟
ٹھہرا ہے جو اک قافلہِ غم میرے دل میں
اس چھوٹی سی بستی سے گزر کیوں نہیں جاتا ؟
سانسوں سے میرے لغزش غم کیوں نہیں جاتی
پیروں سے میرے زخم سفر کیوں نہیں جاتا ؟
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *