ہے وضع کشیدہ کا جو شور اس کے جہاں میں

ہے وضع کشیدہ کا جو شور اس کے جہاں میں
نکلی ہے مگر تازہ کوئی شاخ کماں میں
ہر طور میں ہم حرف و سخن لاگ سے دل کی
کیا کیا کہیں ہیں مرغ چمن اپنی زباں میں
کیا باؤ نے بھی دست تطاول کو دیا طول
پھیلے پڑے ہیں پھول ہی سب اب کے خزاں میں
خوش رنگ ہے کس مرتبہ انہار کا پانی
خوناب مری چشم کا ہے آب رواں میں
روؤ مرے احوال پہ جوں ابر بہت میرؔ
بے طاقتی بجلی کی سی ہے آہ و فغاں میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *