ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی

ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی
کیونکے کہیے کہ اثر گریۂ مجنوں کو نہ تھا
گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی
یہ بگولہ تو نہیں دشت محبت میں سے
جمع ہو خاک اڑی کتنے پریشانوں کی
خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب
یہی اک رہ گئی ہے بستی مسلمانوں کی
سیل اشکوں سے بہے صر صر آہوں سے اڑے
مجھ سے کیا کیا نہ خرابی ہوئی ویرانوں کی
دل و دیں کیسے کہ اس رہزن دلہا سے اب
یہ پڑی ہے کہ خدا خیر کرے جانوں کی
کتنے دل سوختہ ہم جمع ہیں اے غیرت شمع
کر قدم رنجہ کہ مجلس ہے یہ پروانوں کی
سرگذشتیں نہ مری سن کہ اچٹتی ہے نیند
خاصیت یہ ہے مری جان ان افسانوں کی
میکدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میرؔ
ہو نہ لغزش کہیں مجلس ہے یہ بیگانوں کی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *