وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہووے

وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہووے
دل کی معاملت ہے کیا کوئی خوار ہووے
فتراک سے نہ باندھے دیکھے نہ تو تڑپنا
کس آرزو پہ کوئی تیرا شکار ہووے
از بس لہو پیا ہے میں تیرے غم میں گل رو
تربت سے میری شاید حشر بہار ہووے
مرنا بھلا ہے ظالم اس زندگی بد سے
یوں چاہیے کہ کوئی تجھ سے نہ یار ہووے
میں مست مرگیا ہوں کرنا عجب نہ ساقی
گر سنگ شیشہ میرا سنگ مزار ہووے
وابست آسماں کا ملتا ہے خاک ہی میں
اس بے مدار اوپر کس کا مدار ہووے
اے غیر میرؔ تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے
سید نہ ہووے پھر تو کوئی چمار ہووے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *