دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا

دراز اتنا مری قید کا زمانہ تھا
کہ وہ چمن نہ رہا جس میں آشیانہ تھا

بہائے اشک جو اس نے یہ اک بہانہ تھا
کہ خوں بہا کو مرے خاک میں ملانا تھا

بلا سے جان گئی انتظار میں میری
مجھے تو آپ کا اک وعدہ آزمانا تھا

جفائے چرخ ضروری تھی عشق سے پہلے
کہ اپنے دل کا مجھے زور آزمانا تھا

اب انتظار تمہارا میں اور کیا کرتا
ہوئی تھی دیر بہت مجھ کو دور جانا تھا

جہاں ہم آج غریب الدیار ہیں ناطق
اسی دیار میں اپنا غریب خانہ تھا

ناطق لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *