ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے

ہر ایک زخم کا چہرہ گلاب جیسا ہے
مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جیسا ہے
یہ تلخ تلخ سا لہجہ، یہ تیز تیز سی بات
مزاجِ یار کا عالم شراب جیسا ہے
مرا سخن بھی چمن در چمن شفق کی پھوار
ترا بدن بھی مہکتے گلاب جیسا ہے
بڑا طویل ، نہایت حسین، بہت مبہم
مرا سوال تمہارے جواب جیسا ہے
تو زندگی کے حقائق کی تہہ میں یوں نہ اتر
کہ اس ندی کا بہائو چناب جیسا ہے
تری نظر ہی نہیں حرفِ آشنا ورنہ
ہر اک چہرہ یہاں پر کتاب جیسا ہے
چمک اٹھے تو سمندر، بجھے تو ریت کی لہر
مرے خیال کا دریا سراب جیسا ہے
ترے قریب بھی رہ کر نہ پا سکوں تجھ کو
ترے خیال کا جلوہ حباب جیسا ہے
محسن نقوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *