معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا

معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہو گا
تیرے دریا پہ مری پیاس کا پہرہ ہو گا
اس کی آنکھیں تیرے چہرے پہ بہت بولتی ہیں
اس نے پلکوں سے ترا جسم تراشا ہو گا
کتنے جگنو اسی خواہش میں مرے ساتھ چلے
کوئی رستہ ترے گھر کو بھی تو جاتا ہو گا
میں بھی اپنے کو بھلائے ہوئے پھرتا ہوں بہت
آئینہ اس نے بھی کچھ روز نہ دیکھا ہو گا
رات جل تھل مری آنکوں میں اُتر آیا تھا
صورتِ ابر کوئی ٹوٹ کے برسا ہو گا
یا مسیحائی اسے بھول گئی ہے محسن
یا پھر ایسا ہے مرا زخم ہی گھرا ہو گا
محسن نقوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *