دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش

دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش
ہے یہ عالم عجیب اور یہاں
ماجرا ہے عجیب تر درپیش
دو جہاں سے گزر گیا پھر بھی
میں رہا خود کو عمر بھر درپیش
اب میں کوئے عبث شتاب چلوں
کئی اک کام ہیں ادھر درپیش
اس کے دیدار کی امید کہاں
جبکہ ہے دید کو نظر درپیش
اب مری جاں بچ گئی یعنی
ایک قاتل کی ہے سپر درپیش
کس طرح کوچ پر کمر باندھوں
ایک رہزن کی ہے کمر درپیش
خلوتِ ناز اور آئینہ
خود نگر کو ہے ،خود نگر درپیش
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *