محفل اس شوخ کے خیال کی ہے

محفل اس شوخ کے خیال کی ہے
کیفیت ہے کہ وجد و حال کی ہے
میں ہی یہ بوئے خوش نہ پہچانوں؟
یاسمینِ سمن جمال کی ہے
صبح نو کی شفق تو دیکھ ذرا
یہ جھلک اس کی سرخ شال کی ہے
ہے خرابے میں ایک شور بپا
گفتگو اس کے خدو خال کی ہے
میر مجلس کو جو قبول نہیں
ساری مجلس اسی خیال کی ہے
بیر مرہم سے جس قدر ہے مجھے
ہوس اتنی ہی اندمال کی ہے
رنگ سرشار ہیں در و دیوار
اس کی انگڑائی تو کمال کی ہے
رنگ جو اب ہے رنگ عارض کا
یہ عطا شوخی سوال کی ہے
سیل خوں سے گزر دل مشتاق
یہی اک راہ اب وصال کی ہے
غیر کو اس یقیں سے شاد رکھو
کہ ہمیں جستجو محال کی ہے
دیکھ لوں زخم تازہ داروں کو
قوم یہ کفر کے عیال کی ہے
ہیں سر نخل کچھ اناالحق مست
یہ جماعت تو اہل قال کی ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *