میں سہوں کربِ زندگی کب تک

میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک
میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مجھ کو دنیا پُکارتی کب تک
خیمہ گاہِ شمال میں، آخر
اس کی خوشبو رچی بسی کب تک
اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
مرنے والو ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک
جس کی ٹوٹی تھی سانس آخرِ شب
دفن وہ آرزو ہوئی کب تک
دوزخِ ذات باوجود ترے
شبِ فرقت نہیں جلی کب تک
اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
رہا دورانِ جاں کنی کب تک
نہیں معلوم میرے آنے پر
اسکے کوچے میں لُو چلی کب تک
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *