ہے رنگِ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے

ہے رنگِ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے
یعنی جاناں دل کا تقاضا آہ بھی ہے فریاد بھی ہے
تیشہ ناز نے میری انا کے خوں کی قبا پہنائی مجھے
میں جو ہوں پرویز ہوں اک جو ظالم فرہاد بھی ہے
منحصر اس کی منشا پر ہے کس طور اس سے پیش آؤں
قید میری بانہوں میں وہ ہو کر وہ قاتل آزاد بھی ہے
جون جدا تو رہنا ہو گا تجھ کو اپنے یاروں بیچ
یار ہی تو یاروں کا نہیں ہے یاروں کا استاد بھی ہے
ساری ردیفیں بھی حاضر ہیں پھر ساری ترکیبیں بھی
اور تمہیں کیا چاہیئے یارو، حاصل میری داد بھی ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *