واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے

واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
اور یہاں کچھ آرزو بسمل کے دل میں اور ہے

وصل کی ٹھہراوے ظالم تو کسی صورت سے آج
ورنہ ٹھہری کچھ ترے مائل کے دل میں اور ہے

ہے ہلال و بدر میں اک نور پر جو روشنی
دل میں ناقص کے ہے وہ کامل کے دل میں اور ہے

پہلے تو ملتا ہے دل داری سے کیا کیا دل ربا
باندھتا منصوبے پھر وہ مل کے دل میں اور ہے

ہے مجھے بعد از سوال بوسہ خواہش وصل کی
یہ تمنا ایک اس سائل کے دل میں اور ہے

گو وہ محفل میں نہ بولا پا گئے چتون سے ہم
آج کچھ اس رونق محفل کے دل میں اور ہے

یوں تو ہے وہ ہی دل عالم کے دل میں اے ظفر
اس کا عالم مرد صاحب دل کے دل میں اور ہے

بہادر شاہ ظفر

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *