میں اس سے کہاں ملی تھی

میں اس سے کہاں ملی تھی
بس خواب ہی خواب دیکھتی تھی
سایہ تھا کوئی کنار دریا
اور شام کی ڈوبتی گھڑی تھی
کہرے میں چھپا ہوا تھا جنگل
چڑیا کہیں دور بولتی تھی
لپٹی ہوئی دھند کی ردا میں
اک زرد گلاب کی کلی تھی
اک سبز غبار تھا فضا میں
بارش کہیں سانس لے رہی تھی
بادل کوئی چھو گیا تھا مجھ کو
چہرے پر عجیب تازگی تھی
آنکھوں میں ٹھہر گئی تھی شبنم
اور روح میں نرم روشنی تھی
کیا چیز تھی جو میرے بدن میں
آہستہ آہستہ کھل رہی تھی
اک گیت ہوا کے ہونٹ پر تھا
اور اس کی زبان اجنبی تھی
اس رات جبین ماہ پر بھی
تحریر کوئی قدیم سی تھی
یہ عشق نہیں تھا اس زمیں کا
اس میں کوئی بات سرمدی تھی​
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *