”جالب ہن گل مک گئی اے” ھن جان نوں ہی خیرات کرو
کیسے کیسے دشمنِ جاں اب پرسش حال کو آئے ہیں
ان کے بڑے احسان ہیں تم پر اٹھو تسلیمات کرو
تم تو ازل کے دیوانے اور دیوانوں کا شیوہ ہے
اپنے گھر کو آگ لگا کر روشن شہر کی رات کرو
اے بے زور پیارے تم سے کس نے کہا کہ یہ جنگ لڑو
شاہوں کو شہہ دیتے دیتے اپنی بازی مات کرو
اپنے گریباں کے پرچم میں لوگ تمہیں کفنائیں گے
چاہے تم منصور بنو یا پیروی سادات کرو
فیض گیا اب تم بھی چلے تو کون رہے گا مقتل میں
ایک فراز ہے باقی ساتھی، اس کو بھی اپنے ساتھ کرو
احمد فراز