دل ناکام کے ہیں کام خراب

دل ناکام کے ہیں کام خراب
کر لیا عاشقی میں نام خراب

اس خرابات کا یہی ہے مزہ
کہ رہے آدمی مدام خراب

دیکھ کر جنس دل وہ کہتے ہیں
کیوں کرے کوئی اپنے دام خراب

ابر تر سے صبا ہی اچھی تھی
میری مٹی ہوئی تمام خراب

وہ بھی ساقی مجھے نہیں دیتا
وہ جو ٹوٹا پڑا ہے جام خراب

کیا ملا ہم کو زندگی کے سوا
وہ بھی دشوار ناتمام خراب

واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں
خوب رو ہو کے یہ کلام خراب

چال کی رہنمائے عشق نے بھی
وہ دکھایا جو تھا مقام خراب

داغ ہے بد چلن تو ہونے دو
سو میں ہوتا ہے اک غلام خراب

داغ دہلوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *